ترے کرم سے تری بے رخی سے کیا لینا
مرے خلوص وفا کو کسی سے کیا لینا
سکون قلب نہ آسائش حیات نصیب
یہ زندگی ہے تو اس زندگی سے کیا لینا
تو اپنی وضع کو رسوائے عرض حال نہ کر
کسی کو تیرے غم بے بسی سے کیا لینا
خراب زیست ہوں لیکن تری خوشی کے سوا
ترے نثار مجھے زندگی سے کیا لینا
تو میری خوئے محبت بدل نہیں سکتا
زمانے مجھ کو تری بے رخی سے کیا لینا
ستم ہے دم جو مری دوستی کا بھرتے تھے
وہ کہہ رہے ہیں تری دوستی سے کیا لینا
حمیدؔ اصل میں اک غم کو ہے ثبات یہاں
جسے دوام نہیں اس خوشی سے کیا لینا

غزل
ترے کرم سے تری بے رخی سے کیا لینا
حمید ناگپوری