EN हिंदी
ترے جلوے تیرے حجاب کو میری حیرتوں سے نمو ملی | شیح شیری
tere jalwe tere hijab ko meri hairaton se numu mili

غزل

ترے جلوے تیرے حجاب کو میری حیرتوں سے نمو ملی

مختار صدیقی

;

ترے جلوے تیرے حجاب کو میری حیرتوں سے نمو ملی
کہ تھا شب سے دن کبھی تیرہ تر کبھی شب ہی آئنہ رو ملی

تری قربتوں سے بھی کیا ہوا تری دوریوں کا تو کیا گلہ
وہ مقام میں ہی نہ پا سکا مجھے جس مقام پہ تو ملی

وہ ہواؤں ہی سے برس پڑے وہ تری نگہ سے چھلک اٹھے
کوئی بے خودی نہ ہمیں ملی کہ جو بے نیاز سبو ملی

وہ ہو فصل گل کہ فضائے دل جو ملا کہیں تو جنوں ملا
مگر اک خرد ہی نہ مل سکی جو ملی تو صرف رفو ملی