ترے جہاں سے الگ اک جہان چاہتا ہوں
نئی زمین نیا آسمان چاہتا ہوں
بدن کی قید سے باہر تو جا نہیں سکتا
اسی حصار میں رہ کر اڑان چاہتا ہوں
خموش رہنے پہ اب دم سا گھٹنے لگتا ہے
مرے خدا میں دہن میں زبان چاہتا ہوں
کوئی شجر ہی سہی دھوپ سے نجات تو ہو
یہ تم سے کس نے کہا سائبان چاہتا ہوں
یہ ٹکڑا ٹکڑا زمینیں نہ کر عطا مجھ کو
میں پورے صحن کا پورا مکان چاہتا ہوں
پھر ایک بار مری اہمیت کو لوٹا دے
تری نگاہ کو پھر مہربان چاہتا ہوں
مری طلب کوئی دشوار کن نہیں آذرؔ
اسی زمین پہ حفظ و امان چاہتا ہوں

غزل
ترے جہاں سے الگ اک جہان چاہتا ہوں
مشتاق آذر فریدی