ترے دل میں بھی ہیں کدورتیں ترے لب پہ بھی ہیں شکایتیں
مرے دوستوں کی نوازشیں مرے دشمنوں کی عنایتیں
یہ ہے طرفہ صورت دوستی کہ نگاہ و دل ہمہ برف ہیں
نہ وہ بادہ ہے نہ وہ ظرف ہیں نہ وہ حرف ہیں نہ حکایتیں
یہی ربط و ضبط غم و الم تری رائے میں کبھی خوب تھے
وہ یہی تو میرے عیوب تھے جنہیں دی گئی تھیں رعایتیں
ترے آستاں سے کشاں کشاں لیے جا رہی ہیں کہاں کہاں
مرے ناصحوں کی ہدایتیں ترے واعظوں کی روایتیں
ترا نام لیتے ہی اے خدا میں صنم کدے سے نکل چکا
رہیں کاش تا در مصطفی مری رہنما تری آیتیں
غزل
ترے دل میں بھی ہیں کدورتیں ترے لب پہ بھی ہیں شکایتیں
حفیظ جالندھری