EN हिंदी
ترے در سے اٹھ کر جدھر جاؤں میں | شیح شیری
tere dar se uTh kar jidhar jaun main

غزل

ترے در سے اٹھ کر جدھر جاؤں میں

خمارؔ بارہ بنکوی

;

ترے در سے اٹھ کر جدھر جاؤں میں
چلوں دو قدم اور ٹھہر جاؤں میں

سنبھالے تو ہوں خود کو تجھ بن مگر
جو چھو لے کوئی تو بکھر جاؤں میں

اگر تو خفا ہو تو پروا نہیں
ترا غم خفا ہو تو مر جاؤں میں

تبسم نے اتنا ڈسا ہے مجھے
کلی مسکرائے تو ڈر جاؤں میں

مرا گھر فسادات میں جل چکا
وطن جاؤں تو کس کے گھر جاؤں میں

خمارؔ ان سے ترک تعلق بجا
مگر جیتے جی کیسے مر جاؤں میں