ترے بغیر کٹے دن نہ شب گزرتی ہے
حیات کس سے کہوں کیسے اب گزرتی ہے
گمان ہوتا ہے مجھ کو تمہارے آنے کا
ہوا ادھر سے دبے پانوں جب گزرتی ہے
ہمارا کیا ہے کسی طور کٹ ہی جائے گی
سکوں سے ان کی تو شام طرب گزرتی ہے
مجھے وہ لمحہ قیامت سے کم نہیں ہوتا
کوئی کراہ سماعت سے جب گزرتی ہے
گزر رہا ہوں جس احساس کے عذاب سے میں
قیامت ایسی کسی دل پہ کب گزرتی ہے
یہ راہ شوق ہے کچھ احتیاط ہے لازم
ذکیؔ صبا بھی یہاں با ادب گزرتی ہے
غزل
ترے بغیر کٹے دن نہ شب گزرتی ہے
ذکی طارق