EN हिंदी
ترا وحشی کچھ آگے ہے جنون فتنہ ساماں سے | شیح شیری
tera wahshi kuchh aage hai junun-e-fitna-saman se

غزل

ترا وحشی کچھ آگے ہے جنون فتنہ ساماں سے

سحر عشق آبادی

;

ترا وحشی کچھ آگے ہے جنون فتنہ ساماں سے
کہیں دست و گریباں ہو نہ آبادی بیاباں سے

الٰہی جذبۂ دل کا اثر اتنا نہ ہو ان پر
پریشاں وہ نہ ہو جائیں مرے حال پریشاں سے

قیامت ہے وہ آئے اور آتے ہی ہوئے واپس
یہ آثار سحر پیدا ہوئے شام غریباں سے

نظر والے سمجھ جائیں نہ عرش و فرش کی نسبت
ترا دامن نہ چھو جائے کہیں میرے گریباں سے

عروج جوش وحشت سحرؔ ہے یہ روز روشن میں
نظر آتے ہیں تارے روزن دیوار زنداں سے