ترا وحشی کچھ آگے ہے جنون فتنہ ساماں سے
کہیں دست و گریباں ہو نہ آبادی بیاباں سے
الٰہی جذبۂ دل کا اثر اتنا نہ ہو ان پر
پریشاں وہ نہ ہو جائیں مرے حال پریشاں سے
قیامت ہے وہ آئے اور آتے ہی ہوئے واپس
یہ آثار سحر پیدا ہوئے شام غریباں سے
نظر والے سمجھ جائیں نہ عرش و فرش کی نسبت
ترا دامن نہ چھو جائے کہیں میرے گریباں سے
عروج جوش وحشت سحرؔ ہے یہ روز روشن میں
نظر آتے ہیں تارے روزن دیوار زنداں سے
غزل
ترا وحشی کچھ آگے ہے جنون فتنہ ساماں سے
سحر عشق آبادی