EN हिंदी
ترا مے خوار خوش آغاز و خوش انجام ہے ساقی | شیح شیری
tera mai-KHwar KHush-aghaz-o-KHush-anjam hai saqi

غزل

ترا مے خوار خوش آغاز و خوش انجام ہے ساقی

غبار بھٹی

;

ترا مے خوار خوش آغاز و خوش انجام ہے ساقی
کہ دل میں یاد تیری لب پہ تیرا نام ہے ساقی

محیط دور ساغر چرخ نیلی فام ہے ساقی
غلام چشم مے گوں گردش ایام ہے ساقی

دل ناکام کو الفت سے تیری کام ہے ساقی
محبت بے نیاز عبرت انجام ہے ساقی

زمانے سے الگ ہو کر مجھے دنیائے الفت میں
ترا رخ روز روشن زلف تیری شام ہے ساقی

اسی میں آ گئی ہے کھنچ کے ساقی روح تقویٰ کی
متاع دین و ایماں قیمت اک جام ہے ساقی

خدا رکھے تری زلف معنبر کے تصور سے
تخیل میرا عنبر بیز و عنبر فام ہے ساقی

خدارا اس طرف بھی اک نگاہ لطف ہو جائے
مری ہستی ہمہ حسرت ہمہ آلام ہے ساقی

ہوئے ہیں دل پہ اس سے منکشف اسرار ہستی کے
نوائے قلقل مینا مجھے الہام ہے ساقی

شرف تیری غلامی کا بڑی مشکل سے ملتا ہے
زہے قسمت جو تیرا بندۂ بے دام ہے ساقی

ازل سے تا ابد یوں ہی رہے گا خاک مے خانہ
غبارؔ خستہ و ناکام جس کا نام ہے ساقی