EN हिंदी
طلسم آتش غم آزمانے والا ہو | شیح شیری
tilism-e-atish-e-gham aazmane wala ho

غزل

طلسم آتش غم آزمانے والا ہو

حسن جمیل

;

طلسم آتش غم آزمانے والا ہو
چراغ کوئی تہ دل جلانے والا ہو

ہم آ گئے ہیں جسے دیکھنے کو محفل میں
عجب نہیں وہی آنکھیں چرانے والا ہو

بہت سے لوگ سفر میں اکٹھے ہو جائیں
کوئی قریب کوئی دور جانے والا ہو

میں دیکھتا ہوں سر شام آسمان کو یوں
کہ جیسے دور افق سے تو آنے والا ہو

یہ کیا کہ مانجھیوں پر ایک ہی سی کیفیت
کوئی تو ناؤ کنارے پہ لانے والا ہو