EN हिंदी
تیرگی کی اپنی ضد ہے جگنوؤں کی اپنی ضد | شیح شیری
tirgi ki apni zid hai jugnuon ki apni zid

غزل

تیرگی کی اپنی ضد ہے جگنوؤں کی اپنی ضد

پربدھ سوربھ

;

تیرگی کی اپنی ضد ہے جگنوؤں کی اپنی ضد
ٹھوکروں کی اپنی ضد ہے حوصلوں کی اپنی ضد

کون سا قصہ سناؤں آپ کو مشکل یہ ہے
آنسوؤں کی اپنی ضد ہے قہقہوں کی اپنی ضد

گیت میرے چوم آئیں گے تمہیں بن کر صبا
سرحدوں کی اپنی ضد ہے حسرتوں کی اپنی ضد

راستوں نے خوب سمجھایا الجھنا مت مگر
رہزنوں کی اپنی ضد ہے رہبروں کی اپنی ضد

ہائے ٹپکا ہے لہو پھر آج کے اخبار سے
چاقوؤں کی اپنی ضد ہے پسلیوں کی اپنی ضد

دھڑکنوں کی بات مانوں یا کہ آئینے کی اب؟
آرزو کی اپنی ضد ہے جھریوں کی اپنی ضد