EN हिंदी
تیرگی بڑھ رہی ہے باہر کی | شیح شیری
tirgi baDh rahi hai bahar ki

غزل

تیرگی بڑھ رہی ہے باہر کی

نصرت مہدی

;

تیرگی بڑھ رہی ہے باہر کی
رات بھی بے چراغ ہے گھر کی

آبگینوں کی طرح ٹوٹ گئی
جب عمارت بنائی پتھر کی

شام پلکیں بچھائے بیٹھی ہے
اب تھکن بھول جاؤ دن بھر کی

زندگی منزلوں کو ٹھکرا کر
ٹھوکریں کھا رہی ہے در در کی

صرف جذبوں کو سرد کرنا تھا
زندگی ہو تو جاتی پتھر کی