تیرگی بڑھ رہی ہے باہر کی
رات بھی بے چراغ ہے گھر کی
آبگینوں کی طرح ٹوٹ گئی
جب عمارت بنائی پتھر کی
شام پلکیں بچھائے بیٹھی ہے
اب تھکن بھول جاؤ دن بھر کی
زندگی منزلوں کو ٹھکرا کر
ٹھوکریں کھا رہی ہے در در کی
صرف جذبوں کو سرد کرنا تھا
زندگی ہو تو جاتی پتھر کی
غزل
تیرگی بڑھ رہی ہے باہر کی
نصرت مہدی