تیرہ و تار زمینوں کے اجالے دریا
ہم نے صحراؤں کے سینے سے نکالے دریا
وادیاں آئیں تو آرام سے سو جاتے ہیں
فاصلوں سے نہ کبھی ہارنے والے دریا
چاہتے تھے کہ پھریں روئے زمیں پر ہر سو
بن گئے راہ میں غاروں کے نوالے دریا
تجھ سے چھٹنے پہ ترے دھیان کی آغوش ملی
کر گیا مجھ کو سمندر کے حوالے دریا
اے زمیں سوکھ رہے ہیں ترے پیاسے جنگل
کیا ہوئے ہیں تری آغوش کے پالے دریا
کس طرح درد کا طوفاں مرے سینے میں تھمے
کس طرح اپنی روانی کو سنبھالے دریا
غزل
تیرہ و تار زمینوں کے اجالے دریا
زاہد فارانی