تیر و کمان، خنجر و تلوار بن گئے
دشمن ملا تو ہاتھ بھی ہتھیار بن گئے
لفظوں کے کیسے کیسے معانی بدل گئے
کردار کش بھی صاحب کردار بن گئے
جب سے کوئی اصول تجارت نہیں رہا
بازاریوں کے نام پہ بازار بن گئے
قدغن کے باوجود کہاں آ گیا ہوں میں
دروازے میرے سامنے دیوار بن گئے
اس کی زباں پہ حرف تھے عنوان کی طرح
افسانے سیکڑوں پس اظہار بن گئے
اس قافلے میں گرد برابر تھی جن کی ذات
واپس ہوئے تو قافلہ سالار بن گئے
خط کھینچتے ہوئے کوئی بچہ بڑا ہوا
کل کے خطوط آج کے شاہکار بن گئے
غزل
تیر و کمان، خنجر و تلوار بن گئے
مختار جاوید