تیر جیسے کمان سے نکلا
حرف حق تھا زبان سے نکلا
قید ہستی سے چھوٹنے والا
وقت کے امتحان سے نکلا
ٹک نہ پایا ہوا کے جھونکوں میں
پر شکستہ اڑان سے نکلا
شیر آیا کچھار سے باہر
اور شعلہ مچان سے نکلا
غم وہ کانٹا کہ آخری دم تک
دل کو چھوڑا نہ جان سے نکلا
جب اجل جھانکتی پھری گھر گھر
کون زندہ مکان سے نکلا
ظلمتوں کا سفیر تھا کیا تھا
سایہ اک سائبان سے نکلا
مصلحت روکتی رہی اعجازؔ
تھا جو دل میں زبان سے نکلا

غزل
تیر جیسے کمان سے نکلا
غنی اعجاز