EN हिंदी
تیر جب اپنی کمانوں سے نکل جاتے ہیں | شیح شیری
tir jab apni kamanon se nikal jate hain

غزل

تیر جب اپنی کمانوں سے نکل جاتے ہیں

نقاش عابدی

;

تیر جب اپنی کمانوں سے نکل جاتے ہیں
کچھ پرندے بھی اڑانوں سے نکل جاتے ہیں

جانے کس راہ پہ کچھ بھوک سے سہمے بچے
رات کو اپنے مکانوں سے نکل جاتے ہیں

ظرف کی بات نہ کر پھوٹ پڑیں تو لاوے
خود پہاڑوں کے دہانوں سے نکل جاتے ہیں

ہم بھی کیا لوگ ہیں اک گھر کو بنانے کے لیے
کس قدر دور گھرانوں سے نکل جاتے ہیں

ضبط مٹ جائے تو الفاظ بغاوت بن کر
کتنی خاموش زبانوں سے نکل جاتے ہیں

وہ تو ہوتے ہیں فقط وقت گزاری کے لیے
لوگ جو یاد کے خانوں سے نکل جاتے ہیں

کتنے نادان ہیں جو لوگ نظر سے گر کر
دل کے محفوظ خزانوں سے نکل جاتے ہیں