تیر جب اپنی کمانوں سے نکل جاتے ہیں
کچھ پرندے بھی اڑانوں سے نکل جاتے ہیں
جانے کس راہ پہ کچھ بھوک سے سہمے بچے
رات کو اپنے مکانوں سے نکل جاتے ہیں
ظرف کی بات نہ کر پھوٹ پڑیں تو لاوے
خود پہاڑوں کے دہانوں سے نکل جاتے ہیں
ہم بھی کیا لوگ ہیں اک گھر کو بنانے کے لیے
کس قدر دور گھرانوں سے نکل جاتے ہیں
ضبط مٹ جائے تو الفاظ بغاوت بن کر
کتنی خاموش زبانوں سے نکل جاتے ہیں
وہ تو ہوتے ہیں فقط وقت گزاری کے لیے
لوگ جو یاد کے خانوں سے نکل جاتے ہیں
کتنے نادان ہیں جو لوگ نظر سے گر کر
دل کے محفوظ خزانوں سے نکل جاتے ہیں

غزل
تیر جب اپنی کمانوں سے نکل جاتے ہیں
نقاش عابدی