ٹھوکریں کھائیے پتھر بھی اٹھاتے چلئے
آنے والوں کے لیے راہ بناتے چلئے
اپنا جو فرض ہے وہ فرض نبھاتے چلئے
غم ہو جس کا بھی اسے اپنا بناتے چلئے
کل تو آئے گا مگر آج نہ آئے گا کبھی
خواب غفلت میں جو ہیں ان کو جگاتے چلئے
عزم ہے دل میں تو منزل بھی کوئی دور نہیں
سامنے آئے جو دیوار گراتے چلئے
نفرتیں فاصلے کچھ اور بڑھا دیتی ہیں
گیت کچھ پیار کے ان راہوں میں گاتے چلئے
راہ دشوار ہے بے سایہ شجر ہیں سارے
دھوپ ہے سر پہ قدم تیز بڑھاتے چلئے
کام یہ اہل جہاں کا ہے سنیں یا نہ سنیں
اپنا پیغام زمانے کو سناتے چلئے
دل میں سوئے ہوئے نغموں کو جگانا ہے اگر
میری آواز میں آواز ملاتے چلئے
راستے جتنے ہیں سب جاتے ہیں منزل کی طرف
شرط منزل ہے مگر جھومتے گاتے چلئے
کچھ ملے یا نہ ملے اپنی وفاؤں کا صلہ
دامن رسم وفا اپنا بڑھاتے چلئے
یوں ہی شاید دل ویراں میں بہار آ جائے
زخم جتنے ملیں سینے پہ سجاتے چلئے
جب تلک ہاتھ نہ آ جائے کسی کا دامن
دھجیاں اپنے گریباں کی اڑاتے چلئے
شوق سے لکھیے فسانا مگر اک شرط کے ساتھ
اس فسانے سے مرا نام مٹاتے چلئے
آج کے دور میں نوشادؔ یہی بہتر ہے
اس برے دور سے دامن کو بچاتے چلئے
غزل
ٹھوکریں کھائیے پتھر بھی اٹھاتے چلئے
نوشاد علی