ٹھوکریں کھا کے سنبھلنا نہیں آتا ہے مجھے
چل مرے ساتھ کہ چلنا نہیں آتا ہے مجھے
اپنی آنکھوں سے بہا دے کوئی میرے آنسو
اپنی آنکھوں سے نکلنا نہیں آتا ہے مجھے
اب تری گرمئی آغوش ہی تدبیر کرے
موم ہو کر بھی پگھلنا نہیں آتا ہے مجھے
شام کر دیتا ہے اکثر کوئی زلفوں والا
ورنہ وہ دن ہوں کہ ڈھلنا نہیں آتا ہے مجھے
کتنے دل توڑ چکا ہوں اسی بے ہنری سے
جال میں پھنس کے نکلنا نہیں آتا ہے مجھے
بیچ دریا کے میں دریا تو بدل سکتا ہوں
اپنی کشتی کو بدلنا نہیں آتا ہے مجھے
اپنے معنی کو بدلنا تو مجھے آتا ہے
ان کے لفظوں کو بدلنا نہیں آتا ہے مجھے
فرحتؔ احساس ترقی نہیں کرنی مجھ کو
اتنی رفتار سے چلنا نہیں آتا ہے مجھے
غزل
ٹھوکریں کھا کے سنبھلنا نہیں آتا ہے مجھے
فرحت احساس