تھرکتی لو کی بس اک آخری دعا سنتا
پھر اس کے بعد نہ کچھ موجۂ ہوا سنتا
مجھے بھی لگتی کچھ آسان منزل دشوار
جو دوسروں کی صدائے نقوش پا سنتا
کچھ اس قدر بھی زمانے میں قحط حرف نہ تھا
وہ آشنا تھا تو آواز آشنا سنتا
بجز ذخیرۂ اوہام پاس کچھ بھی نہیں
یہ بات کاش وہ گرویدۂ انا سنتا
اسے پکار چکا زندگی میں ہار چکا
مرا خدا تھا تو پھر میری التجا سنتا
ہم ایک عمر سے محسنؔ خمار خواب میں ہیں
ہماری بات زمانے میں کوئی کیا سنتا
غزل
تھرکتی لو کی بس اک آخری دعا سنتا
محسن احسان