EN हिंदी
ٹھیک ہے اجلی یاد کا رشتہ اپنے دل سے ٹوٹا بھی | شیح شیری
Thik hai ujli yaad ka rishta apne dil se TuTa bhi

غزل

ٹھیک ہے اجلی یاد کا رشتہ اپنے دل سے ٹوٹا بھی

سید عارف

;

ٹھیک ہے اجلی یاد کا رشتہ اپنے دل سے ٹوٹا بھی
دریا دریا آگ اگلتا لیکن تم نے دیکھا بھی

میرے سفر کی پہلی منزل جانے کب تک آئے گی
ہانپ رہا ہے صدیوں پرانا بوڑھا ننگا رستہ بھی

شور شرابہ اندر اندر باہر گہری خاموشی
جاگ اٹھے گا اب کے شاید کوئی باغی لمحہ بھی

ساگر موتی سیپ کے قصے باتوں تک محدود رہے
جھولی جھولی خالی سب کی سب کا من ہے میلا بھی

موسم موسم یاد میں تیری تنہا ہم نے کاٹ دیے
اک لمحے کے میل کا رشتہ سچ ہے کوئی رشتہ بھی

پہلے دن سے ریت ہے یہ تو پھر ان میں پچھتانا کیا
پیار وفا کے کھیل میں عارفؔ ہو جاتا ہے دھوکہ بھی