ٹھیک ہے اجلی یاد کا رشتہ اپنے دل سے ٹوٹا بھی
دریا دریا آگ اگلتا لیکن تم نے دیکھا بھی
میرے سفر کی پہلی منزل جانے کب تک آئے گی
ہانپ رہا ہے صدیوں پرانا بوڑھا ننگا رستہ بھی
شور شرابہ اندر اندر باہر گہری خاموشی
جاگ اٹھے گا اب کے شاید کوئی باغی لمحہ بھی
ساگر موتی سیپ کے قصے باتوں تک محدود رہے
جھولی جھولی خالی سب کی سب کا من ہے میلا بھی
موسم موسم یاد میں تیری تنہا ہم نے کاٹ دیے
اک لمحے کے میل کا رشتہ سچ ہے کوئی رشتہ بھی
پہلے دن سے ریت ہے یہ تو پھر ان میں پچھتانا کیا
پیار وفا کے کھیل میں عارفؔ ہو جاتا ہے دھوکہ بھی

غزل
ٹھیک ہے اجلی یاد کا رشتہ اپنے دل سے ٹوٹا بھی
سید عارف