EN हिंदी
تھی یہ امید کہ وہ لوٹ کے گھر آئے گا | شیح شیری
thi ye ummid ki wo lauT ke ghar aaega

غزل

تھی یہ امید کہ وہ لوٹ کے گھر آئے گا

سلمیٰ شاہین

;

تھی یہ امید کہ وہ لوٹ کے گھر آئے گا
کیا خبر تھی کہ بہ انداز دگر آئے گا

کئی زخموں کے کھنڈر اب بھی ہیں میرے دل پر
جب کریدو گے نیا رنگ ابھر آئے گا

مسکرائے گی جب آنکھوں میں ستاروں کی لڑی
آئنہ بن کے حسیں خواب نظر آئے گا

جب بھی لہرائے گی پلکوں پہ تری یاد کی شام
دل کی وادی میں نیا چاند اتر آئے گا

دل کی راہوں کا مقدر ہے سرابوں کا سفر
جو بھی آئے گا یہاں خاک بسر آئے گا

سنگ باروں کی یہ بستی ہے یہاں اے شاہین
کون ہے لے کے جو شیشے کا جگر آئے گا