تھی تو سہی پر آج سے پہلے ایسی حقیر فقیر نہ تھی
دل کی شرافت ذہن کی جودت اتنی بڑی تقصیر نہ تھی
سچ کہتے ہو ہم ایسے کہاں اور سوز و گداز عشق کہاں
سچ ہے مرے آئینۂ دل میں کوئی کبھی تصویر نہ تھی
اب جو اچاٹ ہوئی ہے طبیعت شاید اب ہم رخصت ہیں
بن کارن بے بات وگرنہ ایسی کبھی دلگیر نہ تھی
اہل جنوں کو فصل خزاں سے اب کے بھی گو نہ ربط رہا
اب کے بہار وہ آئی کی جس کی بوئے گل بھی سفیر نہ تھی
آخر غیرت نے سمجھایا نومیدانہ زیست کریں
باقی ہر تدبیر تو کی جو اپنے خلاف ضمیر نہ تھی
غزل
تھی تو سہی پر آج سے پہلے ایسی حقیر فقیر نہ تھی
مختار صدیقی