EN हिंदी
تھی تو سہی پر آج سے پہلے ایسی حقیر فقیر نہ تھی | شیح شیری
thi to sahi par aaj se pahle aisi haqir faqir na thi

غزل

تھی تو سہی پر آج سے پہلے ایسی حقیر فقیر نہ تھی

مختار صدیقی

;

تھی تو سہی پر آج سے پہلے ایسی حقیر فقیر نہ تھی
دل کی شرافت ذہن کی جودت اتنی بڑی تقصیر نہ تھی

سچ کہتے ہو ہم ایسے کہاں اور سوز و گداز عشق کہاں
سچ ہے مرے آئینۂ دل میں کوئی کبھی تصویر نہ تھی

اب جو اچاٹ ہوئی ہے طبیعت شاید اب ہم رخصت ہیں
بن کارن بے بات وگرنہ ایسی کبھی دلگیر نہ تھی

اہل جنوں کو فصل خزاں سے اب کے بھی گو نہ ربط رہا
اب کے بہار وہ آئی کی جس کی بوئے گل بھی سفیر نہ تھی

آخر غیرت نے سمجھایا نومیدانہ زیست کریں
باقی ہر تدبیر تو کی جو اپنے خلاف ضمیر نہ تھی