EN हिंदी
تھی نیند میری مگر اس میں خواب اس کا تھا | شیح شیری
thi nind meri magar usMein KHwab us ka tha

غزل

تھی نیند میری مگر اس میں خواب اس کا تھا

وزیر آغا

;

تھی نیند میری مگر اس میں خواب اس کا تھا
بدن مرا تھا بدن میں عذاب اس کا تھا

سفینے چند خوشی کے ضرور اپنے تھے
مگر وہ سیل غم بے حساب اس کا تھا

دئیے بجھے تو ہوا کو کیا گیا بد نام
قصور ہم نے کیا احتساب اس کا تھا

یہ کس حساب سے کی تو نے روشنی تقسیم
ستارے مجھ کو ملے ماہتاب اس کا تھا

فلک پہ کرچیاں آنکھوں میں موتیا آنسو
جو ریزہ ریزہ ہوا آفتاب اس کا تھا

مری ذرا سی چمک کو کڑک نے ٹوک دیا
سوال تجھ سے کیا تھا جواب اس کا تھا

کھلی کتاب تھی پھولوں بھری زمیں میری
کتاب میری تھی رنگ کتاب اس کا تھا