EN हिंदी
تھے سب کے ہاتھ میں خنجر سوال کیا کرتا | شیح شیری
the sab ke hath mein KHanjar sawal kya karta

غزل

تھے سب کے ہاتھ میں خنجر سوال کیا کرتا

نور منیری

;

تھے سب کے ہاتھ میں خنجر سوال کیا کرتا
میں بے گناہی کا اپنی ملال کیا کرتا

اسی کے ایک اشارے پہ قتل عام ہوا
امیر شہر سے میں عرض حال کیا کرتا

میں قاتلوں کی نگاہوں سے بچ کے بھاگ آیا
کہ میرے ساتھ تھے میرے عیال کیا کرتا

دھرم کے نام پر انسانیت کی نسل کشی
زمانہ ایسی بھی قائم مثال کیا کرتا

جلے مکان جلے جسم جل بجھا سب کچھ
وہ اس سے بڑھ کے ہمیں پائمال کیا کرتا

بٹے ہوئے ہیں ہمی اپنے اپنے خانوں میں
ہمارا ورنہ کوئی ایسا حال کیا کرتا