EN हिंदी
تھے نوالے موتیوں کے جن کے کھانے کے لیے | شیح شیری
the niwale motiyon ke jin ke khane ke liye

غزل

تھے نوالے موتیوں کے جن کے کھانے کے لیے

لالہ مادھو رام جوہر

;

تھے نوالے موتیوں کے جن کے کھانے کے لیے
پھرتے ہیں محتاج وہ اک دانے دانے کے لیے

شمع جلواتے ہیں غیروں سے وہ میری قبر پر
یہ نئی صورت نکالی ہے جلانے کے لیے

دیر جاتا ہوں کبھی کعبہ کبھی سوئے کنشت
ہر طرف پھرتا ہوں تیرے آستانے کے لیے

ہاتھ میں لے کر گلوری مجھ کو دکھلا کر کہا
منہ تو بنوائے کوئی اس پان کھانے کے لیے

اے فلک اچھا کیا انصاف تو نے واہ واہ
رنج میرے واسطے راحت زمانے کے لیے