ٹھنڈی ٹھنڈی نرم ہوا کا جھونکا پیچھے چھوٹ گیا
جانے کس وحشت میں گھر کا رستہ پیچھے چھوٹ گیا
بچے میری انگلی تھامے دھیرے دھیرے چلتے تھے
پھر وہ آگے دوڑ گئے میں تنہا پیچھے چھوٹ گیا
عہد جوانی رو رو کاٹا میرؔ میاں سا حال ہوا
لیکن ان کے آگے اپنا قصہ پیچھے چھوٹ گیا
پیچھے مڑ کر دیکھے گا تو آگے بڑھنا مشکل ہے
میں نے کتنی بار کہا تھا دیکھا؟ پیچھے چھوٹ گیا
سر تا پا سیلاب تھے خالدؔ چاروں جانب دریا تھا
پیاس میں جس دن شدت آئی دریا پیچھے چھوٹ گیا
غزل
ٹھنڈی ٹھنڈی نرم ہوا کا جھونکا پیچھے چھوٹ گیا
خالد ؔمحمود