EN हिंदी
تھم گئے اشک بھی برسے ہوئے بادل کی طرح | شیح شیری
tham gae ashk bhi barse hue baadal ki tarah

غزل

تھم گئے اشک بھی برسے ہوئے بادل کی طرح

جے پی سعید

;

تھم گئے اشک بھی برسے ہوئے بادل کی طرح
دل کی بیتابی وہی آج بھی ہے کل کی طرح

میں بھی ہوں اشک فشاں آپ اکیلے ہی نہیں
میرا دامن بھی ہے نم آپ کے آنچل کی طرح

جام و ساغر ہی پہ موقوف نہیں ہے ساقی
ہم بھی گردش میں ہیں اک دور مسلسل کی طرح

انتظار شب وعدہ کی نہ پوچھو روداد
رات آنکھوں میں کٹی ہے کسی بیکل کی طرح

کسی امید کا مسکن نہ تمنا کا محل
دل کی ویرانی ہے سنسان سے جنگل کی طرح

آپ جل جائے مگر اوروں کو محظوظ کرے
زندگی تم بھی گزارو یوں ہی صندل کی طرح

تیرے جلنے سے اگر تیرگی کم ہو اے دل
تو بھی جل جا کسی جلتی ہوئی مشعل کی طرح

لاشیں بکھری ہیں تمناؤں کی ارمانوں کی
قلب کا گنج شہیداں بھی ہے مقتل کی طرح