تھکن کو جام کریں آرزو کو بادہ کریں
سکون دل کے لیے درد کا اعادہ کریں
ابھرتی ڈوبتی سانسوں پہ منکشف ہو جائیں
سلگتی گرم نگاہوں کو پھر لبادہ کریں
بچھائیں دشت نوردی جنوں کی راہوں میں
فراق شہر رفاقت میں ایستادہ کریں
تمہارے شہر کے آداب بھی عجیب سے ہیں
کہ درد کم ہو مگر آہ کچھ زیادہ کریں
یہ سرد رات نگل لے گی ساعتوں کا وجود
جلائیں شاخ بدن اور استفادہ کریں
غزل
تھکن کو جام کریں آرزو کو بادہ کریں
راغب اختر