تھکن کی تلخیوں کو ارمغاں انمول دیتی ہے
تری بولی مری چائے میں چینی گھول دیتی ہے
نہ جانے منتظر کس کی ہے اک نادان سی لڑکی
کوئی آہٹ جو سنتی ہے دریچہ کھول دیتی ہے
کہاں کانٹے بچھے ہوں گے کدھر سے آئیں گے پتھر
مری ماں خواب میں آ کر مجھے سب بول دیتی ہے
کہیں پر بیٹھ کر سنسان رستہ شام تک دیکھو
محبت اپنے ڈرامے میں یہی اک رول دیتی ہے
یہ تنہا رات راتوں کے علاوہ کچھ نہیں دیتی
مگر کچھ ہاتھ میں دیتی ہے تو انمول دیتی ہے
کبھی فاقہ کشی کا غم نہ چھت کی فکر ہے لیکن
غریبی بیٹیوں کا پہلے زیور مول دیتی ہے
کبھی درویش بن جاؤ تو مل جائے شہنشاہی
کبھی تو بادشاہت ہاتھ میں کشکول دیتی ہے
ہمارے گاؤں کے کھیتوں میں ساگرؔ پھول کھلتے ہیں
وہ مٹی اور ہوگی جو تمہیں پستول دیتی ہے
غزل
تھکن کی تلخیوں کو ارمغاں انمول دیتی ہے
توفیق ساگر