EN हिंदी
ٹھہرے پانی پہ ہاتھ مارا تھا | شیح شیری
Thahre pani pe hath mara tha

غزل

ٹھہرے پانی پہ ہاتھ مارا تھا

توقیر عباس

;

ٹھہرے پانی پہ ہاتھ مارا تھا
دوستوں کو کہاں پکارا تھا

چھوڑ آیا تھا میز پر چائے
یہ جدائی کا استعارا تھا

روح دیتی ہے اب دکھائی مجھے
آئینہ آگ سے گزارا تھا

میری آنکھوں میں آ کے راکھ ہوا
جانے کس دیس کا ستارا تھا

وہ تو صدیوں سے میری روح میں تھا
عکس پتھر سے جو ابھارا تھا

زندگی اور کچھ نہ تھی توقیرؔ
طفل کے ہاتھ میں غبارہ تھا