ٹھہرے پانی پہ ہاتھ مارا تھا
دوستوں کو کہاں پکارا تھا
چھوڑ آیا تھا میز پر چائے
یہ جدائی کا استعارا تھا
روح دیتی ہے اب دکھائی مجھے
آئینہ آگ سے گزارا تھا
میری آنکھوں میں آ کے راکھ ہوا
جانے کس دیس کا ستارا تھا
وہ تو صدیوں سے میری روح میں تھا
عکس پتھر سے جو ابھارا تھا
زندگی اور کچھ نہ تھی توقیرؔ
طفل کے ہاتھ میں غبارہ تھا
غزل
ٹھہرے پانی پہ ہاتھ مارا تھا
توقیر عباس