ٹھہرے ہوئے نہ بہتے ہوئے پانیوں میں ہوں
یہ میں کہاں ہوں کیسی پریشانیوں میں ہوں
اک پل کو بھی سکون سے جینا محال ہے
کن دشمنان جاں کی نگہبانیوں میں ہوں
یوں جل کے راکھ خواب کے پیکر ہوئے کہ بس
اک آئینہ بنا ہوا حیرانیوں میں ہوں
جب راہ سہل تھی تو بڑی مشکلوں میں تھا
اب راہ ہے کٹھن تو کچھ آسانیوں میں ہوں
آساں نہیں ہے اتنا کہ بک جاؤں اس کے ہاتھ
ارزاں نہیں ہوں خواہ فراوانیوں میں ہوں
مجھ کو بھی علم خوب ہے سب مد و جزر کا
میں بھی تو سب کے ساتھ انہیں پانیوں میں ہوں
محسنؔ تمام تر سر و ساماں کے باوجود
پوچھو نہ کتنی بے سر و سامانیوں میں ہوں
غزل
ٹھہرے ہوئے نہ بہتے ہوئے پانیوں میں ہوں
محسن زیدی