ٹھہر کے دیکھ تو اس خاک سے کیا کیا نکل آیا
مری پر گرد پیشانی سے بھی سجدہ نکل آیا
کہیں پیپل اگے ہیں تیسری منزل کے چھجے پر
کہیں کھڑکی کی چوکھٹ سے کوئی قبضہ نکل آیا
ہمارا راستہ تو علم کا تھا جستجو کا تھا
نہ جانے کون سے رستے سے یہ رستہ نکل آیا
تو کیا ہر علم مشکل کی بدولت سیکھتے ہیں ہم
جہاں دشواریاں پہنچیں وہیں رستہ نکل آیا
خدا جانے یہ علم ہیئت اشیا کہاں ٹھہرے
جسے عنصر سا سمجھا تھا مرکب سا نکل آیا
یہ منزل قید خانہ لگ رہی تھی کچھ دنوں پہلے
اور اب اس قید خانے کا بھی دروازہ نکل آیا
بہت نزدیک آنے کا بہانہ مل گیا ہم کو
تمہارا اور میرا دور کا رشتہ نکل آیا
کسی کے آئینہ خانے میں اپنا عکس بھی گم ہے
کسی کے آئینے میں آئینہ خانہ نکل آیا
یہاں تک میں بڑی مشکل بڑی کوشش سے پہنچا تھا
مگر صندوق کھولا تو نیا نقشہ نکل آیا
تمہارے شہر کی سڑکیں بھی بارش دھو گئی ہوگی
ہمارے گاؤں کی گلیوں میں تو سبزہ نکل آیا
غزل
ٹھہر کے دیکھ تو اس خاک سے کیا کیا نکل آیا
عمران شمشاد