EN हिंदी
تھا نگاہوں میں بسایا جانے کس تصویر کو | شیح شیری
tha nigahon mein basaya jaane kis taswir ko

غزل

تھا نگاہوں میں بسایا جانے کس تصویر کو

رضوان الرضا رضوان

;

تھا نگاہوں میں بسایا جانے کس تصویر کو
دیکھ کر حیران ہیں اب خواب کی تعبیر کو

اس نے دل کی دھڑکنیں سن کر شب تاریک میں
کر لیا محسوس میرے نالۂ شب گیر کو

کیسا قاتل تھا مرا شوق شہادت دیکھ کر
رکھ دیا ظالم نے اپنے ہاتھ سے شمشیر کو

دفعتاً خود اس کا چہرہ بھی کتابی ہو گیا
میرے رخ پر پڑھ لیا ہے جانے کس تحریر کو

دشت و صحرا سے گزرنے کا ہنر معلوم ہے
کاٹ دے کوئی ہمارے پاؤں کی زنجیر کو

میں نے مانا کھیل سب تقدیر ہی کا ہے مگر
ہر گھڑی رضوانؔ رکھ پیش نظر تدبیر کو