تھا نگاہوں میں بسایا جانے کس تصویر کو
دیکھ کر حیران ہیں اب خواب کی تعبیر کو
اس نے دل کی دھڑکنیں سن کر شب تاریک میں
کر لیا محسوس میرے نالۂ شب گیر کو
کیسا قاتل تھا مرا شوق شہادت دیکھ کر
رکھ دیا ظالم نے اپنے ہاتھ سے شمشیر کو
دفعتاً خود اس کا چہرہ بھی کتابی ہو گیا
میرے رخ پر پڑھ لیا ہے جانے کس تحریر کو
دشت و صحرا سے گزرنے کا ہنر معلوم ہے
کاٹ دے کوئی ہمارے پاؤں کی زنجیر کو
میں نے مانا کھیل سب تقدیر ہی کا ہے مگر
ہر گھڑی رضوانؔ رکھ پیش نظر تدبیر کو

غزل
تھا نگاہوں میں بسایا جانے کس تصویر کو
رضوان الرضا رضوان