تھا جو کبھی اک شوق فضول
اب ہے وہی اپنا معمول
کیسے یاد رہی تجھ کو
میری اک چھوٹی سی بھول
غم برگد کا گھنا درخت
خوشیاں ننھے ننھے پھول
اب دل کو سمجھائے کون
بات اگرچہ ہے معقول
آنسو خشک ہوئے جب سے
آنگن میں اڑتی ہے دھول
غزل
تھا جو کبھی اک شوق فضول
باصر سلطان کاظمی