EN हिंदी
تھا جو کبھی اک شوق فضول | شیح شیری
tha jo kabhi ek shauq-e-fuzul

غزل

تھا جو کبھی اک شوق فضول

باصر سلطان کاظمی

;

تھا جو کبھی اک شوق فضول
اب ہے وہی اپنا معمول

کیسے یاد رہی تجھ کو
میری اک چھوٹی سی بھول

غم برگد کا گھنا درخت
خوشیاں ننھے ننھے پھول

اب دل کو سمجھائے کون
بات اگرچہ ہے معقول

آنسو خشک ہوئے جب سے
آنگن میں اڑتی ہے دھول