تھا جو اک کافر مسلماں ہو گیا
پل میں ویرانہ گلستاں ہو گیا
چھپ کے پی تھی کل جہاں پہ شیخ نے
اس جگہ قائم خمستاں ہو گیا
چارہ گر کی اب نہیں حاجت مجھے
درد ہی خود بڑھ کے درماں ہو گیا
مجھ پہ کوئی ہو گیا ہے مہرباں
قتل کا اب اپنے ساماں ہو گیا
ہے تغافل ہی کا تیرے فیض کچھ
رفتہ رفتہ میں غزل خواں ہو گیا
مجھ کو اس محفل میں جانا ہی نہ تھا
دل فدائے روئے خوباں ہو گیا
بے وفا سے عشق کا انجام ہے
یہ جو خوشترؔ خون ارماں ہو گیا
غزل
تھا جو اک کافر مسلماں ہو گیا
منصور خوشتر