EN हिंदी
تھا ایک سایہ سا پیچھے پیچھے جو مڑ کے دیکھا تو کچھ نہیں تھا | شیح شیری
tha ek saya sa pichhe pichhe jo muD ke dekha to kuchh nahin tha

غزل

تھا ایک سایہ سا پیچھے پیچھے جو مڑ کے دیکھا تو کچھ نہیں تھا

اختر ہوشیارپوری

;

تھا ایک سایہ سا پیچھے پیچھے جو مڑ کے دیکھا تو کچھ نہیں تھا
اب اپنی صورت کو دیکھتا ہوں کبھی جو صد پیکر آفریں تھا

وہ پھر بھی جاں سے عزیز تر تھا طبیعتیں گو جدا جدا تھیں
اگرچہ ہم زاد بھی نہیں تھا وہ میرا ہم شکل بھی نہیں تھا

میں رک سکوں گا ٹھہر سکوں گا تھکن سفر کی مٹا سکوں گا
کہیں تو کوئی شجر ملے گا تمام رستے یہی یقیں تھا

کئی چٹانیں گداز جسموں میں اپنی گرمی سے ڈھل گئی تھیں
بتوں کے قصے میں تیشہ کاروں کا تذکرہ بھی کہیں کہیں تھا

نہ جانے کیا دھند درمیاں تھی کہ کوہ کن کی نظر نہ پہنچی
جہاں سے پھوٹا تھا چشمۂ ماہ شب کا پتھر بھی تو وہیں تھا

میں اپنی آواز کے تعاقب میں ماورائے نظر بھی پہنچا
مگر پلٹ کر نہ اس نے پوچھا کہ میں خلا کے بہت قریں تھا

وہی مناظر لٹے لٹے سے وہی شکستہ مکان اخترؔ
میں روزمرہ کے راستے سے جو گھر میں پہنچا بہت حزیں تھا