EN हिंदी
تھا برف آتش میں ڈھل رہا ہے | شیح شیری
tha barf aatish mein Dhal raha hai

غزل

تھا برف آتش میں ڈھل رہا ہے

پون کمار

;

تھا برف آتش میں ڈھل رہا ہے
وہ خود کو یکسر بدل رہا ہے

کسی نے ڈھالے ہیں موم کے بت
کسی کا سورج پگھل رہا ہے

ابھی زمیں پر گرے گا ٹپ سے
بہت زیادہ اچھل رہا ہے

نئی عبارت لکھے گا شاید
وہ دائرے سے نکل رہا ہے

اندھیرے پھر ہاتھ مل رہے ہیں
پھر ایک جگنو سنبھل رہا ہے

بجھا سمندر کی پیاس یارب
یہ کتنی ندیاں نگل رہا ہے

جو چاند رہتا تھا آسماں میں
سنا ہے چھت پر ٹہل رہا ہے