تھا برف آتش میں ڈھل رہا ہے
وہ خود کو یکسر بدل رہا ہے
کسی نے ڈھالے ہیں موم کے بت
کسی کا سورج پگھل رہا ہے
ابھی زمیں پر گرے گا ٹپ سے
بہت زیادہ اچھل رہا ہے
نئی عبارت لکھے گا شاید
وہ دائرے سے نکل رہا ہے
اندھیرے پھر ہاتھ مل رہے ہیں
پھر ایک جگنو سنبھل رہا ہے
بجھا سمندر کی پیاس یارب
یہ کتنی ندیاں نگل رہا ہے
جو چاند رہتا تھا آسماں میں
سنا ہے چھت پر ٹہل رہا ہے
غزل
تھا برف آتش میں ڈھل رہا ہے
پون کمار