تھا عجب سیمینار کا موسم تبصرے ہو رہے تھے ہر فن پر
شاعری پر سبھی کا قول تھا یے گرد کتنی جمی ہے درپن پر
آج قسطوں میں دھوپ اتری ہے پر بڑے کر و فر سے اتری ہے
آج سورج ہے ڈوبنے کو مگر دھوپ کے نقش پا ہیں آنگن پر
آج بادل پھٹے ہیں آنکھوں میں آج سیلاب آنے والا ہے
آج چہرے کے کوہ ٹوٹیں گے اور چٹانیں گریں گی دامن پر
کشمکش میں ہیں تنکے چھپر کے خاک ہو جائیں یا ٹھٹھرتے رہیں
برق ہی برق ہے فضاؤں میں اوس ہی اوس ہے نشیمن پر
آپ مسلم ہیں آپ کے سر پر مفتی صاحب کا قول اترے گا
کفر اور شرک اور بدعت کے فتوے آتے نہیں برہمن پر
خال جس نے نوازؔ ادھیڑی ہے وہ ہی درزی ہے میرے پیکر کا
وو ہی گن کر بتائے گا تم کو کتنے پیوند ہیں مرے تن پر
غزل
تھا عجب سیمینار کا موسم تبصرے ہو رہے تھے ہر فن پر
نواز عصیمی