تھا آئینہ کے سامنے چہرہ کھلا ہوا
پانی پہ جیسے چاند کا سایہ پڑا ہوا
گھلتی گئی بدن میں تمازت شراب کی
ساغر نگاہ کا تھا لبالب بھرا ہوا
کل رات تھوڑی دیر کو پلکیں جھپک گئیں
جاگا تو جوڑ جوڑ تھا اپنا دکھا ہوا
شاید کہ سو گئے ہیں بہت تھک کے دل جلے
شہر جنوں تمام ہے سونا پڑا ہوا
تہذیب ڈھونڈھتی ہے کسی ارتقا کی شکل
اقبال مندیوں کا ہے سورج ڈھلا ہوا
دل کا وجود غم کے اندھیرے میں کھو گیا
جیسے کسی مزار کا کتبہ مٹا ہوا
کاندھے پہ ڈھو رہا ہوں گئے وقت کی صلیب
کانٹوں کا تاج سر پہ ہے اپنے رکھا ہوا
غرقاب ہو نہ جائے کہیں ضبط کا جہاں
پھر آج درد دل کا ہے دریا چڑھا ہوا
حالت نہ اب شمیمؔ کی پوچھو کہ وہ غریب
ہوگا کسی گلی میں تماشا بنا ہوا

غزل
تھا آئینہ کے سامنے چہرہ کھلا ہوا
سید احمد شمیم