تیز جب گردش حالات ہوا کرتی ہے
روشنی دن کی سیہ رات ہوا کرتی ہے
رنج اور غم کی جو برسات ہوا کرتی ہے
دولت عشق کی خیرات ہوا کرتی ہے
جب خیالوں میں دبے پاؤں وہ آ جاتا ہے
وہ ملاقات ملاقات ہوا کرتی ہے
اس کی خاموشی بھی طوفاں کا پتا دیتی ہے
اس کی ہر بات میں اک بات ہوا کرتی ہے
جس پہ رشتوں کے نبھانے کی ہو ذمہ داری
اس کے حصے میں فقط مات ہوا کرتی ہے
یہ بھی ہوتا ہے محبت میں سخن کا انداز
لب نہیں کھلتے مگر بات ہوا کرتی ہے
جلتا رہتا ہے چراغوں میں رفاقت کا لہو
ہجر کی رات بھی کیا رات ہوا کرتی ہے
دن کی بے چینیاں راتوں کی تڑپ بے خوابی
اس کی چاہت کی یہ سوغات ہوا کرتی ہے
غزل
تیز جب گردش حالات ہوا کرتی ہے
مینا نقوی