تیز ہوتی جا رہی ہے کس لیے دھڑکن مری
ہو رہی ہے رفتہ رفتہ آنکھ بھی روشن مری
ذہن کے خانوں میں جانے وقت نے کیا بھر دیا
بے سبب ہونے لگی اک ایک سے ان بن مری
جیسے جیسے گتھیوں کی ڈور ہاتھ آتی گئی
کچھ اسی رفتار سے بڑھتی گئی الجھن مری
ایسا لگتا ہے کہ میری سانس پھر گھٹ جائے گی
پھر انا کی نوک پر اٹھنے لگی گردن مری
کیا کوئی سایہ طلوع ہونے لگا ہے پھر ادھر
پھر سے کیوں ہونے لگی ہے دودھیا چلمن مری
غزل
تیز ہوتی جا رہی ہے کس لیے دھڑکن مری
غضنفر