EN हिंदी
تیز ہوا اب تو رک جا میں ٹوٹ گیا | شیح شیری
tez hawa ab to ruk ja main TuT gaya

غزل

تیز ہوا اب تو رک جا میں ٹوٹ گیا

سبطین اخگر

;

تیز ہوا اب تو رک جا میں ٹوٹ گیا
فرض سے تو فارغ میں جاں سے چھوٹ گیا

چھوڑ کے سب قصہ بس اتنا کہتا ہوں
دیواروں سے ٹکرایا سر پھوٹ گیا

کان سنی باتوں کو ہم نے سچ جانا
آنکھوں سے دیکھا تو سب کچھ جھوٹ گیا

آئینہ دیکھا تو کچھ کچھ ہوش آیا
کوئی میرا باغ سا چہرہ لوٹ گیا

اب تو جی میں آتا ہے کچھ کر بیٹھوں
میرے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ گیا