تیز ہوا اب تو رک جا میں ٹوٹ گیا
فرض سے تو فارغ میں جاں سے چھوٹ گیا
چھوڑ کے سب قصہ بس اتنا کہتا ہوں
دیواروں سے ٹکرایا سر پھوٹ گیا
کان سنی باتوں کو ہم نے سچ جانا
آنکھوں سے دیکھا تو سب کچھ جھوٹ گیا
آئینہ دیکھا تو کچھ کچھ ہوش آیا
کوئی میرا باغ سا چہرہ لوٹ گیا
اب تو جی میں آتا ہے کچھ کر بیٹھوں
میرے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ گیا
غزل
تیز ہوا اب تو رک جا میں ٹوٹ گیا
سبطین اخگر