تیز آندھی رات اندھیاری اکیلا راہ رو
بڑھ رہا ہے سوچتا ڈرتا جھجکتا راہ رو
منزلیں سمتیں بدلتی جا رہی ہیں روز و شب
اس بھری دنیا میں ہے انسان تنہا راہ رو
کچھ تو ہے جو شہر میں پھرتا ہے گھبراتا ہوا
بے خبر ورنہ بھرے جنگل سے گزرا راہ رو
کھڑکیاں کھلنے لگیں دروازے وا ہونے لگے
جب بھی گزرا راہ سے کوئی سجیلا راہ رو
خضر کی سی عمر ورنہ کیسے تنہا کاٹتے
بے سہارا راستوں کا ہیں سہارا راہ رو
بخش ہی دے کوئی شاید گیسوؤں کی نرم چھاؤں
ہر نئی بستی میں تھوڑی دیر ٹھہرا راہ رو
کوئی منزل آخری منزل نہیں ہوتی فضیلؔ
زندگی بھی ہے مثال موج دریا راہ رو
غزل
تیز آندھی رات اندھیاری اکیلا راہ رو
فضیل جعفری