تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے عشق تیرا ستائے تو میں کیا کروں
کوئی اتنا تو آ کر بتا دے مجھے جب تری یاد آئے تو میں کیا کروں
میں نے خاک نشیمن کو بوسے دیے اور یہ کہہ کے بھی دل کو سمجھا لیا
آشیانہ بنانا مرا کام تھا کوئی بجلی گرائے تو میں کیا کروں
میں نے مانگی تھی یہ مسجدوں میں دعا میں جسے چاہتا ہوں وہ مجھ کو ملے
جو مرا فرض تھا میں نے پورا کیا اب خدا ہی نہ چاہے تو میں کیا کروں
شوق پینے کا مجھ کو زیادہ نہ تھا ترک توبہ کا کوئی ارادہ نہ تھا
میں شرابی نہیں مجھ کو تہمت نہ دو وہ نظر سے پلائے تو میں کیا کروں
حسن اور عشق دونوں میں تفریق ہے پر انہیں دونوں پہ میرا ایمان ہے
گر خدا روٹھ جائے تو سجدے کروں اور صنم روٹھ جائے تو میں کیا کروں
چشم ساقی سے پینے کو میں جو گیا پارسائی کا میری بھرم کھل گیا
بن رہا ہے جہاں میں تماشا مرا ہوش مجھ کو نہ آئے تو میں کیا کروں
غزل
تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے عشق تیرا ستائے تو میں کیا کروں
تابش کانپوری