تیری سی بھی آفت کوئی اے سوزش تب ہے
اک آگ ہے سو اتنی جلن آگ میں کب ہے
مانا کہ تم امید وفا کے نہیں قائل
پھر کیا مرے جینے کا کوئی اور سبب ہے
خوش ہوں ترے کینے سے کہ شرکت سے ہوں محفوظ
جتنا ترے دل میں ہے وہ میرے لئے سب ہے
حاجت نہیں کچھ اور پس مرگ مگر ایک
یعنی مجھے درکار تری جنبش لب ہے
زندہ رہوں کیوں میں کہ زباں ان سے ہو گستاخ
مرنے میں خموشی ہے خموشی میں ادب ہے
ہو ہجر تو پھر گور میں اور گھر میں ہے کیا فرق
جو گور کی ظلمت ہے وہی ہجر کی شب ہے
اظہار وفا ہے تو کس امید پہ اے شوقؔ
تو داد طلب اس سے کہ بیداد طلب ہے

غزل
تیری سی بھی آفت کوئی اے سوزش تب ہے
شوق قدوائی