تیری نظروں سے یار اتر جاؤں
اس سے بہتر یہ ہے کہ مر جاؤں
میں بھی اب کیا کروں اے میرے رقیب
میری فطرت نہیں کہ ڈر جاؤں
گر تو دستار مانگ لے مجھ سے
تیرے قدموں میں دے کے سر جاؤں
پھر کوئی اور ہی بنوں آخر
ٹوٹ جاؤں تو اس قدر جاؤں
تو بھی بے شک نظر گھما لینا
میں اگر پھیر کر نظر جاؤں
تو مجھے چھوڑ کر نہیں جانا
میں تجھے چھوڑ کر اگر جاؤں
اوپر اوپر تو پار جا نہ سکا
سوچتا ہوں بھنور بھنور جاؤں
ہاتھ خالی ہیں چشم تر ہے میری
اب تو ہی بول کیسے گھر جاؤں
یوں معطر کروں فضا نایابؔ
خوشبوؤں کی طرح بکھر جاؤں
غزل
تیری نظروں سے یار اتر جاؤں
نتن نایاب