تیری ناراضگی فصل خزاں ہے
رفاقت گلستاں ہی گلستاں ہے
ہوئی ہے وار پر جس کی سماعت
حدیث عشق ایسی داستاں ہے
یقیناً انقلاب آیا ہے کوئی
ہمارا ذکر اور ان کی زباں ہے
غموں کا زنگ جو دل سے مٹا دے
وہ دل کش آپ کا طرز بیاں ہے
مجھے موج حوادث کا نہیں ڈر
سفینہ کی مرے ہمت جواں ہے
وطن کے رہنما سے پوچھتا ہوں
وہ رہزن ہے کہ میر کارواں ہے

غزل
تیری ناراضگی فصل خزاں ہے
سرتاج عالم عابدی