EN हिंदी
تیری جھلک نگاہ کے ہر زاویے میں ہے | شیح شیری
teri jhalak nigah ke har zawiye mein hai

غزل

تیری جھلک نگاہ کے ہر زاویے میں ہے

مظفر وارثی

;

تیری جھلک نگاہ کے ہر زاویے میں ہے
دیکھوں تو شکل اپنی مرے آئنے میں ہے

لٹکی ہوئی ہے روح کی سولی پہ زندگی
سانسوں کا سلسلہ ہے کہ رسی گلے میں ہے

کانٹوں کی پیاس نے مجھے کھینچا برہنہ پا
جیسے بھری سبیل ہر اک آبلے میں ہے

سانسوں کی اوٹ لے کے چلا ہوں چراغ دل
سینے میں جو نہیں وہ گھٹن راستے میں ہے

میری صدا کے پھول چڑھاتے ہیں مجھ پہ لوگ
زندہ تو ہوں مگر مرا فن مقبرے میں ہے

ڈالوں کہاں پڑاؤ کہ رستے بھی ہیں رواں
منزل کہاں ملے کہ وہ خود قافلے میں ہے

میں تجھ کو چاہتا ہوں گو حاصل نہ کر سکوں
لذت وہ قرب میں کہاں جو فاصلے میں ہے

پایا صلہ یہ تجھ کو مظفرؔ نے ڈھونڈ کر
شامل اب اس کا نام بھی تیرے پتے میں ہے