تیری عنایتوں کا عجب رنگ ڈھنگ تھا
تیرے حضور پائے قناعت میں لنگ تھا
صحرا کو روندنے کی ہوس پا بہ گل ہے اب
یوں تھا کبھی کہ دامن آفاق تنگ تھا
دامن کو تیرے تھام کے راحت بڑی ملی
اب تک میں اپنے آپ سے مصروف جنگ تھا
ہنگام یاد دل میں نہ آہٹ نہ دستکیں
شورش کدے میں رات خموشی کا رنگ تھا
تو آیا لوٹ آیا ہے گزرے دنوں کا نور
چہروں پہ اپنے ورنہ تو برسوں کا زنگ تھا
رقص جنوں میں بھی تھا طریق ہنر کا ڈھب
صوفی با صفا تھا کوئی یا ملنگ تھا
کیا آسماں اٹھاتے محبت میں جب کہ دل
تار نگہ میں الجھی ہوئی اک پتنگ تھا
غزل
تیری عنایتوں کا عجب رنگ ڈھنگ تھا
امیر حمزہ ثاقب