تیری گلی میں اک دیوانہ اکثر آیا کرتا تھا
دیواروں سے سر ٹکرا کے لطف اٹھایا کرتا تھا
بیٹھ کے ساحل پر ہم دونوں سپنے بویا کرتے تھے
ریت کے سینے پر اک بچہ محل اگایا کرتا تھا
آج بھی اس مرحوم کی یادیں اشکوں سے پیوستہ ہیں
دل دکھیارا تیرے میرے درد بٹایا کرتا تھا
میرے پاؤں چاٹ کے میرے قد سے بھی بڑھ جاتا تھا
میرے ساتھ تماشے کتنے میرا سایہ کرتا تھا
نوک مژہ پر کتنے قلزم تھام کے بیٹھا رہتا تھا
جانے کیوں میں گہرے گہرے زخم چھپایا کرتا تھا
یہ بھی حصول ناموری کی کتنی پاگل کوشش تھی
آب رواں پر لکھ کے اپنا نام مٹایا کرتا تھا
غزل
تیری گلی میں اک دیوانہ اکثر آیا کرتا تھا
سید نصیر شاہ