تیری چشم ستم ایجاد سے ڈر لگتا ہے
یہ غلط ہے کسی افتاد سے ڈر لگتا ہے
اس لیے چپ ہوں کہ آداب قفس پر ہے نظر
کون کہتا ہے کہ صیاد سے ڈر لگتا ہے
ہم تو لذت کش آزار ہیں اے جوش وفا
اور ہیں وہ جنہیں بیداد سے ڈر لگتا ہے
تیرے جلووں کو کہیں عام نہ کر دیں اے دوست
اس لیے مانی و بہزاد سے ڈر لگتا ہے
کاش وہ وقت نہ آئے مری دنیا میں کبھی
جب محبت کی ہر افتاد سے ڈر لگتا ہے
کہیں ایسا نہ ہو زنداں بھی بیاباں ہو جائے
عشق کی فطرت آزاد سے ڈر لگتا ہے
پہلے ڈر تھا کہ کہیں بھول نہ جاؤں تجھ کو
اب یہ عالم ہے تری یاد سے ڈر لگتا ہے
نہ وہ آداب وفا ہیں نہ وہ آداب جنوں
اے مشیرؔ اب دل ناشاد سے ڈر لگتا ہے
غزل
تیری چشم ستم ایجاد سے ڈر لگتا ہے
مشیر جھنجھانوی