EN हिंदी
تیری چشم ستم ایجاد سے ڈر لگتا ہے | شیح شیری
teri chashm-e-sitam-ijad se Dar lagta hai

غزل

تیری چشم ستم ایجاد سے ڈر لگتا ہے

مشیر جھنجھانوی

;

تیری چشم ستم ایجاد سے ڈر لگتا ہے
یہ غلط ہے کسی افتاد سے ڈر لگتا ہے

اس لیے چپ ہوں کہ آداب قفس پر ہے نظر
کون کہتا ہے کہ صیاد سے ڈر لگتا ہے

ہم تو لذت کش آزار ہیں اے جوش وفا
اور ہیں وہ جنہیں بیداد سے ڈر لگتا ہے

تیرے جلووں کو کہیں عام نہ کر دیں اے دوست
اس لیے مانی و بہزاد سے ڈر لگتا ہے

کاش وہ وقت نہ آئے مری دنیا میں کبھی
جب محبت کی ہر افتاد سے ڈر لگتا ہے

کہیں ایسا نہ ہو زنداں بھی بیاباں ہو جائے
عشق کی فطرت آزاد سے ڈر لگتا ہے

پہلے ڈر تھا کہ کہیں بھول نہ جاؤں تجھ کو
اب یہ عالم ہے تری یاد سے ڈر لگتا ہے

نہ وہ آداب وفا ہیں نہ وہ آداب جنوں
اے مشیرؔ اب دل ناشاد سے ڈر لگتا ہے